طبع شدہ نظمیں

پرندوں سے بھرا آسمان

پرندوں سے بھرا آسمان میں اس زندگی کا اگلا صفحہ لکھ چکا ہوں جو کہیں مصلوب کردی گئی ہے میرا دل ان بچوں کے ساتھ دھڑکتا ہے جن کے سر کھلے آسمان کے نیچے ننگے ہیں میں نے اپنے ہاتھوں پر ان گھروں کے لئے دعائیں لکھی ہیں جن گھروں کے دروازوں پر خدا دستک […]

پرندوں سے بھرا آسمان Read More »

سیا ہ ہاتھ اور جگنو

سیاہ ہاتھ اور جگنو ظلم کی سیاہ رات کو اجلا بنانے کی خواہش کرنے والے شہیدوں کا لہو دشمن کی آستینوں پر ایک روز ضرور چمکے گا ظلم کی زنجیر کو توڑنے کے لئے جو آوازیں کل نعرہ بنی تھیں آھنی ہاتھوں نے آج انہیں سنگلاخ دیواروں کے پیچھے دھکیل دیا ہے مگر ایک ایسی

سیا ہ ہاتھ اور جگنو Read More »

کھلونوں کے پھول

کھلونوں کے پھول وقت کے آئینہ پر میں اپنا چہرہ دیکھنا چاھتا ہوں مگر بوڑھے خوابوں کی گرفت میں سور ج ڈوب گیا ہے آسمان تک دھول اڑ رہی ہے تازگی کو ترسا ہوا موسم ہے دروازہ بےصدا ہے گرد باد دور تک پھیلا ہے اب ہم اپنے خوابوں ک پورا نہیں کرسکتے مٹی کے

کھلونوں کے پھول Read More »

روشنیوں سے دور

روشنیوں سے دور ستاروں کی روشنی سے بہت دور مردہ زمینوں اور آگ پھونکتی ہواوں کے درمیاں رقص ابد جاری ہے کتابوں میں چہرے لکھے جارہے ہیں اس پر ہول اندھیر ے میں کہیں ایک چیخ ابھرتی ہے سانسوں کو نچوڑ کر اس پر اینٹ رکھ دی جاتی ہے یوں ایک سیاہ دیوار دلوں کے

روشنیوں سے دور Read More »

بند کھڑکیاں

تم کون ہو ؟ میرے ہم زبان ہو کہ میرے ہم وطن ہو مجھے محبت کے کسی رشتہ میں پرودو میرے سرد ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں تھام لو میرا چہرہ ابھی مٹا نہیں ہے تم کون ہو؟ میرے ہم زبان ہو تو محبت کا کوئی  نغمہ سکھاو میرے ہم وطن ہو تو میرے سر

بند کھڑکیاں Read More »

سورج اندھیرے پھینک رہا ہے

ہم روشنی کے لئے کس طرف کھڑکی کھولیں پرانی زندگی کا دکھ نئے د ن کی خوشی میں چھپ نہیں سکتا خواب اور کھڑکی کے درمیاں بچے کھیلتے ہیں مگر میرا دکھ عجیب ہے وقت کا ہر لمحہ ایک نئی سمت کھنیچتا ہے اب مجھے چھپ جا نا ہے مگر ایک آواز جادو جیسی ہے

سورج اندھیرے پھینک رہا ہے Read More »

چوڑیاں گم ہوگئیں

جب ہمارے رخ بدل دئے گئے تو شہر ویران ہو گئے تمام منظروں سے آوازیں اتار دی گئیں اور ہجرت ممنوع قرار پائی لوگوں سے پھری اجلی بستیوں میں ویرانے اترنے لگے جنگل رقص کرتا ہماری دیواروں تک اتر آیا بد ہیبت مکڑیاں اپنے جالوں میں اندھیرا ٹانکنے لگیں کوئی دوسرا اپنی تنہائی میں کسی

چوڑیاں گم ہوگئیں Read More »

غنیم کا لشکر

مفلسی کی دیمک پوشاک کو چاٹ رہی ہے دکھوں کی برہنگی کو چھپانا مشکل ہوگیا ہے گھر کی دیواریں چھوٹی ہوتی جارہی ہیں پرچھائیوں کے عقب میں غنیم کا لشکر ہے جو روٹی چھیننے اور غزتوں پر وار کرنے آگے پڑھتا چلا آرہا ہے بولتی زبانوں کا شور ساکت سمندر بن گیا ہے کون ہے

غنیم کا لشکر Read More »

مٹی کی خواہش

یہ  جسم مردہ ہیں لفظ جنہیں لکھتے ہوئے ہم کاغذ کالے کرتے ہیں گناہ کی طرح بے لذت ہیں ہم زندہ رہنا چاھتے ہیں چراغ سے چراغ جلانا چاہتے ہیں ان چہروں کو مٹا دینا چاھتے ہیں جو قاتل ہیں دہشتگرد ہیں ہم کچلی ہوئی تصویروں میں تازہ رنگ بھر دیں گے زخمی کلائیوں کو

مٹی کی خواہش Read More »

قاتل کون ہے؟

تم نے اس کا خون دیکھا ہے تم نے اس کی زبان سنی ہے تم نے اس کا گھر دیکھا ہے کسی چوراہے پر کسی دفتر کے بند کمرے ہیں اور کسی دروازے پر جو اپنی عمر ہار جاتا ہے رشتوں کی زنجیر توڑ دیتا ہے اس آدمی کی ٹانگیں کیسی ہوتی ہیں جو دوڑ

قاتل کون ہے؟ Read More »

نامعلوم سے معلوم تک

زندگی کے رنگوں کی اڑتی ہوئی دھنک جسے پکڑنے کی خواہش میں انسان بھاگتا رہتا ہے مگر کوئی اس دھنک کو اپنے ہاتھوں  پر نہیں اتار سکا اس کا تعاقب جاری ہے وہ ایک ایسی ڈور میں شریک ہے جس کا کوئی کنار نہیں ہے حالانکہ زندگی  ۔۔۔۔ خود انسان کے وجود میں موج در

نامعلوم سے معلوم تک Read More »

محبت ایک پوشاک

تمہاری محبت ایک ایسی پوشاک کی طرح ہے جس نے میرے ظاہری و باطنی وجودوں کو چھپا رکھا ہے تمہاری خوشبو ایک آبجو ہے جس  میں تیر کر میں دور نکل جانا چاہتا ہوں اور جب شام کے کناروں پر میرا سفر پہنچے تو میری خواہش ہے کہ تم پھولوں کا بستر بن کر میرے

محبت ایک پوشاک Read More »

آج کا دن

آج کا دن غیر معمولی طور پر روشن ہے لوگوں کے ہجوم کے درمیان بے نام چہروں بے ہنگم آوازوں کا شور اور روشنی کے بے سمت بکھرتے زاویوں کو توڑ کر مجھے اس تک پیچنا ہے جس  کے لئے میرے دل کے مندر میں گنٹھیاں بجائی جارہی ہیں وہ چہرہ اجنبی ہے مگر زندگی

آج کا دن Read More »

شام کے کنارے پر

ایک جنگل پرندوں کی آواز سے محروم ہے ایک آواز ہاتھوں سے بار بار گرتی ہے ایک لڑکی جو شام کے کنارے اکیلی ہے ان سب سے اوپر جلتا سورج ہے مسافر اپنا سامان درست کر رہا ہے بہت سی چیزیں اور خواب جو کسی نے اس کے اسباب میں چپکے سے رکھ دئے تھے

شام کے کنارے پر Read More »

خواب ۔۔۔۔۔۔ امن کے شہر کا

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہمارے چہرے اصلی نہیں ان پر نقابیں ہیں اور ہم نے اپنے جسموں کی دیوار کے پیچھے تعویز چھپا رکھے ہیِں وہ ہمارے سروں پر بیٹھنے والے خوبصورت پرنددوں سے جلتے ہیں وہ  ہماری کہانیوں میں رقص کرتے کرداروں سے نفرت کرتے ہیں وہ چاھتے ہیں کہ ہم اپنی کہانیوں

خواب ۔۔۔۔۔۔ امن کے شہر کا Read More »

سیلاب میں

وقت اپنے موسم بدل رہا ہے تمہیں چھوتے ہوئے لمحے خواب بن جاتے ہیں اور میں تمہارے ایک ایک لمس کو جوڑ کر تمہیں مکمل کر دینا چاھتا ہوں مگر تمہیں چھونے والے میرے ہاتھ بے اثر ہوگئے ہیں تمہاری آنکھیں پرسات کی طرح برس رہی ہیں اور میرے بوسور کی برمیاں تمہیں جوڑ نہیں

سیلاب میں Read More »

شعلہ بدن اور شبنمی لباس

ہم سمندر کو چھونے کی خواہش میں آہستہ آہستہ اندھرے میں اترتے جارہے ہیں میری نیند ایک نئی زندگی کے خواب کی طرح جاگتی ہے یہ سب کچھ حقیقت سے زیادہ خوبصورت ہے ایک بڑا سا گھر جس کی کھڑکی سے جھانکتی ہوئی تم میری واپسی کا انتظار کرتی ہو اور پھر تمہاری آواز مجھے

شعلہ بدن اور شبنمی لباس Read More »

اندر کا چراغ

تم اپنے سفر میں ہو کہ خواہشیں تمہیں رنگ برنگے غباروں کی طرح اڑتی ہوئی محسوس ہوتیں ہیں تم انہیں چھونے کے لئے آگے بڑھتی ہو اور سرابوں کو اوڑھ لیتی ہو تم دائروں میں قید ہو تمہاری نیکی  اور تمہارا چہرہ جھوٹ کے خلاف ہے اور زخمی ہے تم اپنی راہ الگ تراش رہی

اندر کا چراغ Read More »

گڑیا کی نیند

ایس نظروں سےتم مجھے دیکھتی ہو کہ تم مجھے دوبارہ زندگی سے جوڑ دیتی ہو یہ تمہارا کھیل ہے مگر میں روز تمہارے ہاتھوں سے جوڑے جانا پسند کر تا ہوں اور پھر تم مسکرا دیتی ہو تو خوشبو ہمیں گھیر لیتی ہے تم سمندر کی طرح پرجوش ہو مگر کنارے پر رکی رہتی ہو

گڑیا کی نیند Read More »

تم نہیں لوٹ سکتیں

تم نے مچھے مایوس  کیا ہے میں جانتا ہوں تم ایک بیمار معاشرے کی انا پرست لڑکی ہو جو چیت کے دوڑ میں ہار جاتی ہے تو پھر وقت کے ہر گزرتے لمحے کو اترن سمجھنے لگتی ہے زندگی ایک کھیل ہے ، جس کے ایک طرف رنگ ہیں، خوشیاں ہیں اور دوسری سمت پھیلے

تم نہیں لوٹ سکتیں Read More »

عمر کی بوڑھی لکیریں

ہم گرنے سے تو بچ گئے ہیں مگر ساحل کا کنارہ سمندر میں ڈوب گیا اور چلے ہو ئے ستاروں کی راکھ مٹی کا ڈھیر بن چکی ہے بس دکھ کی ایک لہر ہے اس پار جنگل ہے اور اوپر سیاہ آسمان ہے مگر ہماری دنیا تو دیوار کے اس طرف ہے ہم جذبوں کی

عمر کی بوڑھی لکیریں Read More »

جسم کشتی بن گئے

جب رات کے آخری پہر سارا بدن جلنے لگتا ہے تو میرے ہاتھ تمہیں بنانے لگتے ہیں بستر پر تمہارا بدن پھیل جاتا ہے سمندر کی طرح بے کتار اور پھر خوشبو بکھر جاتی ہے مگر یہ تو رات کی کہانی ہے جب میرے ہاتھ تمہارے جسم پر تیرتے ہیں تو کئی کشتیاں ابھرتی ہیں

جسم کشتی بن گئے Read More »

وہ مجھے دیکھتی ہے

میری بانہوں میں اس کا چہرہ پگھل جاتا ہے اور وہ یوں مجھے دیکھتی ہے کہ کہیں اس کے خواب ٹوٹ نہ جائیں اس کے ہاتھ لہولہاں نہ ہو جائیں اس کی پیاس ادھوری نہ رہ جائے مگر میں کناروں تک پھیلا ہوا آسماں ہوں جو اس کی پیشانی کو چوم کر سمندر بن جاتا

وہ مجھے دیکھتی ہے Read More »

ابابیلیں اڑ رہی ہیں

صرف تمہارا چہرہ ہے جو میرے جسم سے جوڑ دیا گیا ہے مگر میرے ہاتھ خالی ہیں زندگی کے ویران راستوں پر ابابیلیں اڑ رہی ہیں ہر پتھر تمہارا چہرہ ہے جو جلتے ہوئے سورج کی طرح پگھل رہا ہے آوازوں کے شور کو خاموشی کے کوزے میں بند کر دیا گیا ہے جہاں تم

ابابیلیں اڑ رہی ہیں Read More »

کہانی جو لکھی نہیں جا سکتی

ہم ایک ایسی کہانی میں موجود ہیں جو لکھی نہیں جاسکتی بس ہمارے ہونٹ ہیں جو اپنی سرگوشیوں میں ایک ایک لمحے کو تازہ پھول بنا رہے ہیں مگر جب بھی کوئی لمحہ جگنو بن کر چمکتا ہے تو ہم اپنے جسموں کی دیوار کے پیچھے کسی اجنبی چو رکی طرح چھپ جاتے ہیں جیسے

کہانی جو لکھی نہیں جا سکتی Read More »

وعدوں کی کتاب

ہم جلتے سورج کی طرح ہیں جسے اندھیرے کی تلوار کاٹ رہی ہے ہم سوچتے ہیں اور اپنے جسموں کو دیوار کی طرح ملانے کی کوشش کرتے ہیں مگر وقت ملتے نہیں دیتا طاق میں رکھے سوکھے پھولوں کی طرح ہم تازیگی کو ترس رہے ہیں اور پتی پتی بکھر رہے ہیں ڈالی سے ٹوٹےہوئے

وعدوں کی کتاب Read More »

تمہاری دہلیز پر

ایک شیش محل ہے اور بے شمار آنکھوں میں صرف تمہاری آنکھیں مجھے یاد ہیں میں کس طرح کسی ایسے لمحے کو بھول سکتا ہوں جسے تم نے میرے ساتھ میرے لیئے دیکھا تھا ڈر لگتا ہے کہ کہیں تنہائیوں کے سیاہ خوف سے تم ان یادوں کو کسی دیوار میں نہ چن دو اگر

تمہاری دہلیز پر Read More »

اجنبی بننےسے پہلے

ہماری روحیں دو مختلف جسموں میں ہیں اور ہم بارش کی دیوار کے نیچے پیاسےہیں تم افق کی طرح رنگ دار ہو اور میں ایک تیز خواب آور زہر میں ڈوبا ہوں اور یوں تمہاری طرف بڑھ رہا ہوں جیسے کوئی آگ میر اپیچھا کررہی ہو ہوا کے تیز طوفان میں ہم زیادہ دیر یکجا

اجنبی بننےسے پہلے Read More »

پتنگ کے فاصلے

یوں لگتا ہے ایک خواب تیزی سے گزرتا جا رہاہے ہم ایک دوسرے کو کھو چکے ہیں اور ہمارے درمیان فاصلے اتنے گہرے ہیں کہ کئی سورج اس میں ڈوبتے اور ابھرتے ہیں تم اپنا چہرہ کھو چکی ہو میں کس طرح تم تک پہونچوں کہ کٹی پتنگ کی طرح میں اپنی سمت کھو چکا

پتنگ کے فاصلے Read More »

بارش ہورہی ہے

یہ ایک سنسنی خیز لمحہ ہے ہم میں سے کوئی بھی ہاتھ چھڑا نہیں سکتا تمہاری بدن کی طرف میرے ہاتھ بہتے پانیوں کی طرح اترتے ہیں اور ایک لمحے کی دیر نہیں ہوتی کہ تیز روشنی ہمیں پکڑ لیتی ہے اب ہم چیختی آوازوں کے درمیاں ہیں کالی راتوں میں تیز ہواوں کا شور

بارش ہورہی ہے Read More »

ہونٹوں کو چوم کر

یہ لمحہ جو ہماری دھڑکن سے دور تھا برف کی دیوار کی طرح تھا آسمان کاغذ کا بن گیا تھا اور سورج ایک جلتی ہوئی دعا ہم کٹ رہے تھے اور جسم کے ہر حصے کو جوڑ رہے تھے گلاب کو شاخ پر رکھ رہے تھے اور ہونٹوں کو چوم کر محبت کا وعدہ کر

ہونٹوں کو چوم کر Read More »

سیا ہ موسموں کا دروازہ

سیاہ موسموں سے زندگی کو چرانا پڑتا ہے مگر کتنے برس اور ہم یہ طوق گلے میں ڈالیں گے کو ئی آھٹ بلند نہیں ہوتی کوئی جھونکا خوشبو نہیں بنتا جسم کو کاٹتا ایک دریا بہتا ہے یہ وہ دعا نہیں جو پوری ہوئی سلگتے جسموں سے جلتے جہنم تک زندگی سیاہ موسموں کا دروازہ

سیا ہ موسموں کا دروازہ Read More »

نیا موسم

خواب کا دروازہ کھلاہے اب ہم پھول ہیں بکھرے رنگ ناچتی خوشبوئیں ہمارے بدن پر اترچکی ہیں گلے میں نئے دن کی مالا ہے اور آنکھیں یوں روشن ہیں جیسے سورج سامنے ہو خوابو ں کی دہلیز پر اب کوئی سیا ہ موسم نہیں ہے

نیا موسم Read More »

زندہ لمس کی خواہش

شاید وہ کئی ٹکڑوں میں بانٹ دی گئی ہے اندھیرے میں چمکتے سفید دانت او رسرخ زبان جب اس کے وجود کے سونے میں اترتے ہیں تو وہ ناپاک ہو جاتی ہے دل سے دماغ تک کئی جزیرے بپھری لہروں میں ڈوب جاتے ہیں اور اسے ڈر لگتا ہے وہ ہاتھ اونچے کرتی ہے مگر

زندہ لمس کی خواہش Read More »

وقت ٹوٹ گیا ہے

ہم آگ روشنی کے لئے لائے تھے ایک درخت کی اونچائی سے ہم نے زمین کو ڈوبتے دیکھا اب درخت سونا بن کر پگھل رہے ہیں اور ہم چہرہ بنا رہے ہیں کاش ہم نے دل بھی بنایا ہوتا وہ لڑکی جس کے ہاتھ پر ہر رات ایک پھول کھلتا ہے وہ کیوں اپنے ہاتھ

وقت ٹوٹ گیا ہے Read More »

جنگل کی راکھ

وہ ایک دوراہے پر کھڑی ہے ایک طرف بوڑھا ہاتھ ہے جو چاھتا ہے کہ وہ رات بن کر اس کے جاگتے بدن پر ٹوٹ پڑے دوسری طرف آسمان پر امنگیں اپنے خوش رنگ پر پھیلائے اڑ رہی ہیں اور وہ ایک بے کنار پرواز چاہتی ہے مگر اس کے پاس بیھٹا ہو ا بوڑھا

جنگل کی راکھ Read More »

ایک درخت کے نیچے

ایک درخت کے نیچے وہ دو جسم تھے مختلف سایوں اور آوازوں کے درمیان انہوں نے ایک خواب دیکھا تھا مگر روشنی کی آنکھیں ان کی دشمن تھیں دو سائے ہمیشہ ایک دوسرے کے تعاقب میں خود کو ہار جاتے ہیں ایک درخت کے نیچے وقت پگھلتا رہا نہوں نے چاہا کہ سورج کو زمین

ایک درخت کے نیچے Read More »

رات کا آخری پہر

ایک ساز ہے مگر آواز نہیں ایک چہرہ ہے مگر عبارت نہیں ایک اترتی ہوئی رات ہے مگر کوئی دیا نہیں صرف آنکھیں ہیں جو ایک بے وفا کے پاس گروی ہیں اور دو دلوں کے بیچ ایک بند دروازہ ہے جسے کوئی روز رات کے آخری پہر کھولتا ہے اور سناٹوں کو آواز سے

رات کا آخری پہر Read More »

جب دستک ابھرتی ہے

جب تھکن بازو سمیٹی ہے دن کے سارے اجلے کپڑے رات کے فرش پر گرتے چلے جاتے ہیں آوازیں مجھے پکارتی ہیں میں لمبے راستوں پر پیروں کی لکیریں کھینچتا ہوں میرے بدن پر سوئی تھکن قطرہ قطرہ اندھیرے میں گرتی جاتی ہے خوشبو کا سیلاب پھیل جاتا ہے میرے پیاسے ہاتھوں پر مہکتا بدن

جب دستک ابھرتی ہے Read More »

کوئی تیسرا شخص

ہم دونوں بے سایہ شجر کی طرح ہیں وقت کی ڈور ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ گئی ہے میں تمہارے جسم کی طرف دیکھتا ہوں تو میرے بدن کی حرارتیں ٹھنڈی ہونے لگتی ہیں میں تمہارے سامنے گر جاتا ہوں میرے ہاتھوں کی مٹی ہوئی لکیروں میں تمہارا چہرہ چھپ گیا ہے مگر تم مجھے تھام

کوئی تیسرا شخص Read More »

پناہ درکار ہے

ایک بار پھر مجھے پناہ درکار ہے مصنوعی موسم کی اجلی شاموں سے میں خود کو موڑ چکا ہوں خوشیوں کے لمحےٹوٹی ہوئی گھڑی کی سوئیوں کی طرح ایک ہی زمین پر رک گئے ہیں میں بہت آگے نکل آیا ہوں ایک بار پھر مجھے پناہ درکار ہے جو تم جیسا ہو اور کوئی سوال

پناہ درکار ہے Read More »

خوابوں کی فصیل

میرے سیاہ آسمان پر تم نے اپنے چہرے کی روشنیاں لکھ دی ہیں بہت دنوں بعد آج ایک قیدی رہا ہو کر چاند دیکھ رہا ہے میں تو بازی ہار چکا تھا جس زمین میں مجھے اپنے خوابوں کی فصل بونا تھی وہ دھوپ میں جل گئی تھی مگر آج تمہاری بھیگی آنکھوں میں دعائیں

خوابوں کی فصیل Read More »

ہاتھ آزاد ہیں

وہ میرا جنون تھا جو سچ ہو گیا ہے میں نے کئی بار خود کو کسی بہت اونچی عمارت پر ایستادہ پایا کہ اگلے ہی لمحے میں کود کر خود کا مٹانا چاہتا تھا میرے ترکش میں تین تیر تھے مگر چاروں سمتیں میری مخالف تھیں میں محبت کے نام پر آگ کو چوم لیتا

ہاتھ آزاد ہیں Read More »

روشنی کی پکار

ہمارے دل سیاہ تھے قریب تھا کہ ہمارے جسموں پر آسمان سے غذاب اترتا تو ہم جل کر راکھ ہوجاتے ہمارے دل سیاہ تھے قریب تھاکہ ہم گرتے اور ٹوٹ جاتے یا ہماری سانسیس روک لی جاتیں پھر ہمیں آگ کے گڑھے میں پھینک دیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا اور ہم تک ہدایت آ

روشنی کی پکار Read More »

دوسرے کنار ے پر

وقت کے دوسرے کنارے پر کون ہے میں لاپتا ہو چکا ہوں وقت کے رتھ پر کوئی نہیں چاند انگوٹھی میں جڑا ہوا ہے شہ رگ کٹ چکی ہے صرف سانپ کا زہر جاگ رہا ہے نیلے ہونٹوں پر پیاسے جسموں کی پکار ہے وقت کے دوسرے کنارے پر کون پے کیا میرا خدا پھر

دوسرے کنار ے پر Read More »

Scroll to Top