اظہاریہ

میں بہت نظر انداز کیا گیا ہوں۔۔۔ بہت سے چہرے میرے مخالف رہے، مجھے ہمیشہ اندیشہ رہا کہ کچھ لوگ میرے تعاقب میں ہیں اور میں ان کے نشانے کی زد پر ہوں، میں غیر ارادی طور پر لوگوں کی طنزیہ نظروں اور تمسخرانہ آوازوں کے نرغے سے بھاگ نکلا اور اپنی ہی ذات کی خاموش وادی میں اترتا چلا گیا، یوں مجھے پہاڑ کی دوسری طرف کی دنیا کا منظرصاف دکھائی دینے لگا۔
یہ میری بازیافت کا دور تھا
میں خواب نہیں دیکھتا مگر پھر بھی زیورات میں پالی جانے والی جنس نے اپنے خوبصورت ہاتھوں کے اشاروں پر مجھے کٹھ پتلی کی طرح نچایا، یوں لگتا تھا کہ کسی نے پوری قوت سے لکڑی کی کیل میرے سر میں گاڑ کر مجھے اپنی ہی ذات کے زنداں میں قید کردیا ہو۔
میری سوچ اور میرے لفظ گونگے ہو گئے تھے
تخلیق کا ہنر بولنا اور لکھنا خود سکھا دیتا ہے، ایک انچانا خوف تھا جس کے زیر اثر میں ہمیشہ لوگوں کے گروہوں اور مجلسوں سے دور رہا، میرے خوش قسمتی رہی کہ چند کتابیں اس تنہائی میں ہمیشہ میرے ساتھ رہیں ۔ سید ابوالامودودی کی تفہیم القران اور خطبات، منشی پریم چند اور کرشن چندر کے ناول اور افسانے، امرتا پریتم ، جاذب قریشی، پروین شاکر اور سارہ شگفتہ کی شاعری، سید قطب شہید، حضرت شاہ ولی اللہ، شاہ اسمعیل شہید، قائد اعظم محمد علی جناح اور علامہ اقبال جیسی شخصیات کے مطالعے نے مجھے پتھر ہوتے وجود کا بچا لینے کی قوت بخشی۔میں نے اس روشنی سے رہنمائی حاصل کی جو میرے دل میں روز اول سے موجود ہے، میں ہمیشہ رب کائنات کے اس احسان سے مغلوب رہاکہ اس نے مجھے انسان بنایا، اشرف المخلوقات قرار دیا اور محسن انسانیت ،رحمتہ اللعالمین آنحصرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک ادنی امتی ہونے کا شرف بخشا کہ اس نسبت سے یہ بندہ خاکی خود کو فخر و غرور کی سربلندیوں پر پاتاہوں۔
اس سچائی نے میرے وجود کو سجدہ بنادیا
میں اپنے دوستوں اور بزرگوں خاص طور پر مجاہد بریلوی، رشید جمال ،قاضی محمد اختر جوناگڑی، محمد نعیم اور اپنی شریک زندگی کا ذکر کروں گا کہ جن سے دوستی اور خلوص نے مجھے اپنے اعتماد کو بحال رکھنے میں مدد دی۔ باجی عشرت نسرین صاحبہ اور ان کا ادارہ “ادارہ فکرونظر” بھِی میرے اس تخلیقی سفر میں ایک سنگ میل کی حیثت رکھتا ہے۔ سوہنی دھرتی یوتھ کونسل سے اپنے دیرنیہ تعلق کے حوالےسے میں خاص طور پر سید عادل ابراہیم کا ذکر کروں گاکہ ان کا نام شہر کی سماجی اور ثقافتی زندگی کے خوالے سے ایک معتبر نام ہے اور وہ ہم سے کی محبوظں کا محور ہیں۔
جناب جاذب قریشی میرے محترم استاد بھی ہیں اور رہنما بھی، ان کی شاعری میرے لئےایک نصاب کا درجہ رکھتی ہے، ان کی مہربان شخصیت اور ان سے شناشائی ، اس سارے تخلیقی سفر میں جہاں بھِی اندھے موڑ تھے شیشے کے درخت کی طرح منور رہی اور یوں میں ہر پل اپنی پہچان برقرار رکھ سکا۔

Spread the love
Scroll to Top