عمر کی بوڑھی لکیریں

ہم گرنے سے تو بچ گئے ہیں
مگر ساحل کا کنارہ سمندر میں ڈوب گیا
اور چلے ہو ئے ستاروں کی راکھ
مٹی کا ڈھیر بن چکی ہے
بس دکھ کی ایک لہر ہے
اس پار جنگل ہے
اور اوپر سیاہ آسمان ہے
مگر ہماری دنیا تو دیوار کے اس طرف ہے
ہم جذبوں کی گرمی کھو چکے ہیں
اور لفظوں کے اشارے بنا کر خوشی کو
ڈھونڈنا بھول چکے ہیں
ساحل کے ڈوبے ہوئے کنارے پر
ہم نے کچھ وعدے لکھے تھے
جہاں اب لہروں کے تار بکھرے ہیں
ہم گرنے سے تو بچ گئے ہیں
مگر عمر کی لکیر بوڑھی ہوتی جارہی ہے

Spread the love

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top