ہم گرنے سے تو بچ گئے ہیں
مگر ساحل کا کنارہ سمندر میں ڈوب گیا
اور چلے ہو ئے ستاروں کی راکھ
مٹی کا ڈھیر بن چکی ہے
بس دکھ کی ایک لہر ہے
اس پار جنگل ہے
اور اوپر سیاہ آسمان ہے
مگر ہماری دنیا تو دیوار کے اس طرف ہے
ہم جذبوں کی گرمی کھو چکے ہیں
اور لفظوں کے اشارے بنا کر خوشی کو
ڈھونڈنا بھول چکے ہیں
ساحل کے ڈوبے ہوئے کنارے پر
ہم نے کچھ وعدے لکھے تھے
جہاں اب لہروں کے تار بکھرے ہیں
ہم گرنے سے تو بچ گئے ہیں
مگر عمر کی لکیر بوڑھی ہوتی جارہی ہے
Related Posts
پرندوں سے بھرا آسمان
پرندوں سے بھرا آسمان میں اس زندگی کا اگلا صفحہ لکھ چکا ہوں جو کہیں مصلوب کردی گئی ہے میرا دل ان بچوں کے ساتھ دھڑکتا ہے جن کے سر […]
سیا ہ ہاتھ اور جگنو
سیاہ ہاتھ اور جگنو ظلم کی سیاہ رات کو اجلا بنانے کی خواہش کرنے والے شہیدوں کا لہو دشمن کی آستینوں پر ایک روز ضرور چمکے گا ظلم کی زنجیر […]
کھلونوں کے پھول
کھلونوں کے پھول وقت کے آئینہ پر میں اپنا چہرہ دیکھنا چاھتا ہوں مگر بوڑھے خوابوں کی گرفت میں سور ج ڈوب گیا ہے آسمان تک دھول اڑ رہی ہے […]
روشنیوں سے دور
روشنیوں سے دور ستاروں کی روشنی سے بہت دور مردہ زمینوں اور آگ پھونکتی ہواوں کے درمیاں رقص ابد جاری ہے کتابوں میں چہرے لکھے جارہے ہیں اس پر ہول […]