وقت ٹوٹ گیا ہے
ہم آگ روشنی کے لئے لائے تھے ایک درخت کی اونچائی سے ہم نے زمین کو ڈوبتے دیکھا اب درخت سونا بن کر پگھل رہے ہیں اور ہم چہرہ بنا رہے ہیں کاش ہم نے دل بھی بنایا ہوتا وہ لڑکی جس کے ہاتھ پر ہر رات ایک پھول کھلتا ہے وہ کیوں اپنے ہاتھ […]
ہم آگ روشنی کے لئے لائے تھے ایک درخت کی اونچائی سے ہم نے زمین کو ڈوبتے دیکھا اب درخت سونا بن کر پگھل رہے ہیں اور ہم چہرہ بنا رہے ہیں کاش ہم نے دل بھی بنایا ہوتا وہ لڑکی جس کے ہاتھ پر ہر رات ایک پھول کھلتا ہے وہ کیوں اپنے ہاتھ […]
وہ ایک دوراہے پر کھڑی ہے ایک طرف بوڑھا ہاتھ ہے جو چاھتا ہے کہ وہ رات بن کر اس کے جاگتے بدن پر ٹوٹ پڑے دوسری طرف آسمان پر امنگیں اپنے خوش رنگ پر پھیلائے اڑ رہی ہیں اور وہ ایک بے کنار پرواز چاہتی ہے مگر اس کے پاس بیھٹا ہو ا بوڑھا
ایک درخت کے نیچے وہ دو جسم تھے مختلف سایوں اور آوازوں کے درمیان انہوں نے ایک خواب دیکھا تھا مگر روشنی کی آنکھیں ان کی دشمن تھیں دو سائے ہمیشہ ایک دوسرے کے تعاقب میں خود کو ہار جاتے ہیں ایک درخت کے نیچے وقت پگھلتا رہا نہوں نے چاہا کہ سورج کو زمین
ایک ساز ہے مگر آواز نہیں ایک چہرہ ہے مگر عبارت نہیں ایک اترتی ہوئی رات ہے مگر کوئی دیا نہیں صرف آنکھیں ہیں جو ایک بے وفا کے پاس گروی ہیں اور دو دلوں کے بیچ ایک بند دروازہ ہے جسے کوئی روز رات کے آخری پہر کھولتا ہے اور سناٹوں کو آواز سے
جب تھکن بازو سمیٹی ہے دن کے سارے اجلے کپڑے رات کے فرش پر گرتے چلے جاتے ہیں آوازیں مجھے پکارتی ہیں میں لمبے راستوں پر پیروں کی لکیریں کھینچتا ہوں میرے بدن پر سوئی تھکن قطرہ قطرہ اندھیرے میں گرتی جاتی ہے خوشبو کا سیلاب پھیل جاتا ہے میرے پیاسے ہاتھوں پر مہکتا بدن
ہم دونوں بے سایہ شجر کی طرح ہیں وقت کی ڈور ہمارے ہاتھوں سے چھوٹ گئی ہے میں تمہارے جسم کی طرف دیکھتا ہوں تو میرے بدن کی حرارتیں ٹھنڈی ہونے لگتی ہیں میں تمہارے سامنے گر جاتا ہوں میرے ہاتھوں کی مٹی ہوئی لکیروں میں تمہارا چہرہ چھپ گیا ہے مگر تم مجھے تھام
ایک بار پھر مجھے پناہ درکار ہے مصنوعی موسم کی اجلی شاموں سے میں خود کو موڑ چکا ہوں خوشیوں کے لمحےٹوٹی ہوئی گھڑی کی سوئیوں کی طرح ایک ہی زمین پر رک گئے ہیں میں بہت آگے نکل آیا ہوں ایک بار پھر مجھے پناہ درکار ہے جو تم جیسا ہو اور کوئی سوال
میرے سیاہ آسمان پر تم نے اپنے چہرے کی روشنیاں لکھ دی ہیں بہت دنوں بعد آج ایک قیدی رہا ہو کر چاند دیکھ رہا ہے میں تو بازی ہار چکا تھا جس زمین میں مجھے اپنے خوابوں کی فصل بونا تھی وہ دھوپ میں جل گئی تھی مگر آج تمہاری بھیگی آنکھوں میں دعائیں
وہ میرا جنون تھا جو سچ ہو گیا ہے میں نے کئی بار خود کو کسی بہت اونچی عمارت پر ایستادہ پایا کہ اگلے ہی لمحے میں کود کر خود کا مٹانا چاہتا تھا میرے ترکش میں تین تیر تھے مگر چاروں سمتیں میری مخالف تھیں میں محبت کے نام پر آگ کو چوم لیتا
ہمارے دل سیاہ تھے قریب تھا کہ ہمارے جسموں پر آسمان سے غذاب اترتا تو ہم جل کر راکھ ہوجاتے ہمارے دل سیاہ تھے قریب تھاکہ ہم گرتے اور ٹوٹ جاتے یا ہماری سانسیس روک لی جاتیں پھر ہمیں آگ کے گڑھے میں پھینک دیا جاتا مگر ایسا نہیں ہوا اور ہم تک ہدایت آ
وقت کے دوسرے کنارے پر کون ہے میں لاپتا ہو چکا ہوں وقت کے رتھ پر کوئی نہیں چاند انگوٹھی میں جڑا ہوا ہے شہ رگ کٹ چکی ہے صرف سانپ کا زہر جاگ رہا ہے نیلے ہونٹوں پر پیاسے جسموں کی پکار ہے وقت کے دوسرے کنارے پر کون پے کیا میرا خدا پھر
لفظوں میں زندگی کو لکھنا غذاب ہے، لفظ ٹوٹ جائیں تو ان کے درمیان پر چھائیں تقسیم ہو جاتی ہیں، سورج کی روشنی جب مصلوب جسموں کو چھوتی ہے تو روشنی یا تو تمام مناظر کو اجاگر کردیتی ہے ورنہ بجھے ہوئے چراغوں سے اٹھتا ہوا دھواں افق کو سیاہ کردیتا ہے۔ میں گھر اور
وقت پر کوئی زنجیرنہیں ڈالی جاسکتی اور ہمارے چہرے راکھ ہوگئے ہیں۔ شاید کسی نئے جنم میں، کسی اجنبی دنیا میں ایک بار پھر ہم ملیں، مگر اس سے پہلے ہمیں اپنے جذبوں کی راکھ کو بکھرنے سے محفوظ رکھنا ہوگا۔ اڑتے پرندوں کے رنگین پروں پر نغمے لکھنے ہوں گے۔ جب کوئی سرحد یں
ہم نوحہ گر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ زمین پر بوچھ بڑھ گیا ہے، چمکتی روشنیوں کے پیچھے ہم سب کچھ نہیں چھپا سکتے، مگر دکھ تو آنسووں کے سیلاب میں بہتا جارہاہے۔ ہم نوحہ گر ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ! جب گولیوں کی آوازیں ہر طرف گونجتی ہیں ، تو آسمان پرندوں کی آوازوں سے خالی ہوجاتا ہے۔ وہ
ہم جس تناؤ سے گزر رہے ہیں، اس کے ختم ہوجانے کےامکانات معدوم ہوچکے ہیں۔ اس صورتحال کے باعث ساری فضا گدلاتی جارہی ہے۔ میں تمہیں اس کا ذمے دار نہیں سمجھتا۔ بہت سے واقعات عالم بالا سے یوں ظہور پذیر ہوتے ہیں کہ اگر ہم ان کے اسباب کو سمجھنا چاہیں تو شاید کچھ
اسکے خال و خد میرے جسم کی حراتو ں میں لکھ دئے گئے حیرتوں کی چار دیواری سے دور پرندوں کی آوازوں کے ہمراہ طلوع ہونے والی صبح جہاں گہری نیند میں دیکھے جانے والے خواب ہمیشہ ٹوٹ جاتے ہیں ایک احساس بے کنار آسمانوں کی سمت پھیل رہا تھا خواب کی بے چین نیند
یہ ایک ایسا احساس ہے جو چھونے سے بھی زیادہ لطیف ہے جسم کے پر لطف زاویوں سے ماوارا روح کی گہرائیوں سے ایک چشمہ پھوٹ رہا ہے جسکے رنگ خواب کی نیم آغوش بانہوں میں گم ہورہے ہیں اور آنکھوں کے راستے تمہارے جسم کے تالاب سے میں پانی پی رہا ہوں پیاس بلوریں
ایک تنہا نغمہ رقص میں بے حال ہے Read More »
آج کا دن غیر معولی طور پر روشن ہے لوگوں کے ہجوم کے درمیان بے نام چہروں ، بے ہنگم آوازوں کے شور اور روشنی کے بے سمت بکھرتے زاؤیوں کو توڑ کر مجھے اس تک پہچنا ہے جس کے لئے میرے دل کے مندر میں گھنٹیاں بجائی جارہی ہیں وہ چہرہ اجبنی ہے مگر
جب زندگی کے درمیان راستے ختم ہوگئے تو ہم نے سوچا، ایک ایسی رات آراستہ کی جائے، جسکی مشرقی دیوار پر سورج کبھی طلوع نہ ہو۔ خوشبو کی بہتی جھیل میں جب ہم نے اپنے پاؤں رکھے تو چاند اور سورج ہمارے ساتھ تھے۔ پرندوں کی اجلی آوازیں تنہائی کی چادر پر لکھے گم شدہ
اس کی خواہشیں معصوم تھیں، اسے آسمانوں کی وسعت کا کبھی احساس نہ تھا، صبح کی روشنی نے پہلی بار اسے چھوا تو اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بارش ہونے لگی۔زندگی اتنی خوبصورت تو نہ تھی ۔۔ اس کی روح بار بار کچلی گئی تھی، اس کی خواب دیکھنے والی آنکھوں کے آگے سنگلاخ
میں ایک ایسی کہانی کا حصہ ہوں جسے کسی انجام کے بغیر لکھا دیا گیا، اس شہر خاموشاں میں ، جہاں ہوا بھی ٹہر گئی تھی، خواب سے بیدار ہوتی آنکھوں نے رقص کی خواہش کی، مگر اس اجنبی شہر میں آشنائی جرم ٹہری۔ پھر کہانی میں تمہیں بھی شامل کر دیا گیا، شاید تقدیر
ایک ایسی گہری رات کے بعد طلوع ہونے والی نئے سال کی صبح کیسی ہوگی جب آگہی جرم بن چکی ہے جب الفت و محبت میں ڈوبے ہوئے لمحے وقت کی ٹوٹی ہوئی کرچیوں میں خون آلود پڑے ہیں وقت کی بے وفائی، بے دام ہوچکی ہے آدمی اپنے انسان ہونے کے احساس سے محروم
اب جینے کے کئی معنی ہیں ، یہاں پہچنے تک ہم نے کئی زخم اٹھائے اور ایک ایسی دھوپ عبور کی جس کی جلتی آگ میں اڑتے پرندے بھی پگھل رہے ہیں۔ تم سنگھار کرنا چاھتی ہو، اپنا روپ، اپنی خوشبو ، اپنی آواز اور قدموں کی چاپ، سب کچھ میرے حوالے کردینا چاھتی ہو۔
اب جینے کے کئی معنی ہیں Read More »
اس کے باوجود ۔۔۔ کہ میں اس دنیا میں تمہارے لئے کوئی گھر نہیں بنا سکا تم نے فقط میرے دل میں رہنا گوارا کیا خواہشوں کو چھوڑنے میں پہل کی تم مسکرا سکتی تھیں مگر تم نے تنہائی میں رھنا ، مجھے یا د کرنا اور آنسو بہنا پسند کیا اپنے ہاتھوں پر مہندی
اس سے پہلے کہ زمین کھسک جاتی میں نے کیوں نہ آسمان کا کنارہ تھام لیا میں نے خود کو جلا دیا اور چاہ کہ اپنی انگلیوں کو رنگ میں ڈوبو کر ایک تصویر بناؤں شام کے اجالے کی مگر تصویر کے رنگوں میں اب صرف سائے ہیں تمہاری محبت سدا بہار موسم کی طرح
خواب محرومیوں کو جگاتے ہیں ، میری آرزویں اب تمہارے نام سے منسوب ہیں۔ رات کے آخری پہر کسی دوسرے کے موجود نہ ہونے پر ہم کتنے ملول ہو جاتے ہیں۔ ہر صبح ، میں تمہیں رات کی کہانی سناتا ہوں، آج ہماری محبت اپنا پہلا سال مکمل کرچکی ہے۔ ہم ایک دوسرے کو جتنا
رات کے آخری پہر میں Read More »
مجھے یوں لگا ، میں آئینہ میں خود کو دیکھ رہا ہوں۔ اتنی محبت مجھے خود سے بھی نہ تھی۔ جس قدر چاہت کا اظہار اس نے مجھ سے کیا ۔ وہ میرے خون میں سفر کرتی ہوئی میرے دل اور پھر خواب تک آپہنچی ۔ ہر رات میں ایک بزم سجاتا ہوں۔ رات کے
بہت سے چہروں میں گم وہ ایک چہرہ Read More »
امکانات سے باہر سورج کی روشنی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے تم سے ہم آغوش ہونے کے خیال کو میں نے کبھی بوسیدہ ہونے نہیں دیا خواب و خیال> خواب گاہ سے کبھی باہر نہیں نکلے سور ج کی روشنی جب بھی ستاروں سےبھرے آنچل میں پناہ لیتی تو میں اس یقین کو کبھی نہیں
یہ جنگل ہے اور ڈور تے ہوئے میرے پاؤں زخمی ہوچکے ہیں میں سمتوں کا گمان کھو چکا ہوں اور کسی آہٹ کی طرف ڈورتا ہوں میں لہولہان ہوں اور کسی بھی لمحے آزادی کی خواہش سے ٹوٹ سکتاہوں یہ جنگل جو پہلے پرندوں کی آوازوں سے بھرا تھا اب خاموشی کی سزا کاٹ رہا
کالے سمندروں کے سفر سے لوٹے ہوئے وہ مجھے انتظار کی شکار گاہ کے قریب جاگتی ہوئی ملی اس کی آنکھوں نے کہا تم تو میرے بستر کی ہر شکن میں موجود تھے اور میں ہر رات تمہارے کپڑوں میں بسے لمس سے ہم بستر ہوتی تھی اب زندگی کتنے مختلف خانوں میں بٹ گئی
بوری میں بند لاش کسی سے کچھ نہیں کہتی سارے سوالوں کے جواب اسکی مٹھی سے گر کر کہیں کھو گئے ہیں ادھ کھلی آنکھوں میں قید آخری منظر قطرہ قطرہ پگھل رہا ہے لوگوں کے چہرے بجھے ہوئے ہیں کچھ آوازیں بھی اس منظر میں موجود ہیں جنہیں خاموش ہونٹوں نے جکڑ رکھا ہے