پیاس کا سفر

وقت پر کوئی زنجیرنہیں ڈالی جاسکتی اور ہمارے چہرے راکھ ہوگئے ہیں۔ شاید کسی نئے جنم میں، کسی اجنبی دنیا میں ایک بار پھر ہم ملیں، مگر اس سے پہلے ہمیں اپنے جذبوں کی راکھ کو بکھرنے سے محفوظ رکھنا ہوگا۔ اڑتے پرندوں کے رنگین پروں پر نغمے لکھنے ہوں گے۔
جب کوئی سرحد یں مٹا دی جائیں گی تو وعدے پورے کرنے کی گھڑی آجائے گی۔ جب کوئی زنجیر وقت کو ، زبان کو اور گیتوں کو قید نہیں کرسکے گی۔
ہم راکھ میں ہاتھ کالے کرتے ہیں اور پھر ایک کرن پالیتے ہیں۔ کل چاند رات تھی ، ہم نے اپنے ہونٹ ملاکر چھوڑ دئیے تھے۔
آج اندھیرے میں دھوپ کھیل رہی ہے، جسموں کے اندر آگ جل رہی ہے۔ پھر ہمارے ہاتھ بھی جل جائیں گے اور ہر طرف آگ ناچے گی۔ ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک، ایک جنم سے ہر جنم تک، ہماری پیاس سفر کرے گی۔
جب تک دھرتی کی گود میں درخت اگتے رہیں گے، ان کی بھری ہوئی جیبوں سے پھول گرتے رہیں گے اور چہروں پر چاند نکلے گا۔ ہم ان ہی موسموں میں جنم لیں گے۔
پہاڑوں کی اونچی چوٹیوں کو ہماری گونچتی آواز چھولے گی تو پھر کوئی نہیں روک سکے گا اور ہم اس دیوار کو ضرور ڈھونڈلیں گے جس کے سائے کی نرمی آج بھی ہمارے خوابوں میں تازہ ہے
وہ دیکھو ۔۔۔۔۔۔ !
آج نیا دن ہے اور آسمان پر کوئی سورج نہیں ۔۔۔۔ مگر ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں۔ تمہارے جسم کا ریشم کہکشاں پر پھیلا ہوا ہے۔
وہ دیکھو ۔۔۔۔۔۔ !
ایک پرندہ اڑتا ہے، جس کے بازووں میں اس کی پر چھائیں ہے، پچھلے جنم میں ہر بار وہ اپنی ہی پرچھائیں سے ٹکراتا تھا۔
آج آزادی کی صبح ہے ۔۔۔۔۔ !
آسمان پر ہمارے ہاتھوں کا سورج ہے اور ہمارے سائے ہر قدم ہمارے ساتھ ہیں۔
اب ہمیں کسی بھی دوسرے جنم کا انتظار نہیں کہ ہم نے خواہشوں کی جنت اپنے ارادوں سے زمین کے دل میں اتار دی ہے۔
وہ وقت جو گزر گیا ہے ۔۔۔۔۔ !
اپنے چہرے پر ٹوٹی لکیریں لئے دفن ہو چکا ہے
وہ دیکھو ۔۔۔۔۔۔ !
قبر سے ایک پودا نکل رہا ہے۔/p>

Spread the love

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top