لفظوں میں زندگی کو لکھنا غذاب ہے، لفظ ٹوٹ جائیں تو ان کے درمیان پر چھائیں تقسیم ہو جاتی ہیں، سورج کی روشنی جب مصلوب جسموں کو چھوتی ہے تو روشنی یا تو تمام مناظر کو اجاگر کردیتی ہے ورنہ بجھے ہوئے چراغوں سے اٹھتا ہوا دھواں افق کو سیاہ کردیتا ہے۔
میں گھر اور دیوار کے بیچ ایک سایہ ہوں، چمکتی روشنیوں کے لفظ مجھے زمین پر پھیلتے اور گم ہوتے سایوں کی طرح لکھتے ہیں اور مٹا دیتے ہیں، میری پھٹی ہوئی تصویر دیوار پر ٹھوک دی گئی ہے، کیلیں میرے ہونٹوں اور آنکھوں میں پیوست کر دی گئی ہیں، مگر میں کسی اجنبی دیوار کا اشتہار نہیں، اپنے ہی گھر کی مشرقی دیوار پر ایک ٹوٹی ہوئی زندگی کی عبارت ہوں، میں نے مٹے ہوئے لفظوں کو دوبارہ لکھنے کا گناہ کیا، اس دوران سرد و گرم دونوں ہی ذائقے میرے لہو میں شامل ہوئے، مگر آدمی کا مزاج تو کسی اور ہی آگ کی تلاش میں کوہ طور کا سفر کرتا ہے۔ ا پنے پیچھے میں نے بہت دھول اڑائی مگر زندگی کا کوئی بھی راستہ صاف نہ کر سکا۔ اب سفر کی اگلی منزلیں دھندلی دکھائی دیتی ہیں اور تھکن سے بدن ٹوٹ چکاہے، اب اپنے خوابوں کا بوجھ میں نہیں اٹھا سکتا کہ اگلی منزل تک بہتی دھوپ میں مجھے اپنے بے چہرہ وجود کے ساتھ سفر کر نا ہے۔
آئینے کی عمر ایک دھوکا ہوتی ہے، اس کی چمک جب میرے ہاتھوں پر سے اتری تو میں تنہاتھا ۔۔۔۔ تنہائی کا یہ لمحہ تاریک رات کی طرح ہولناک تھا، اس تنہائی میں انسان آوازوں کی گرفت میں کٹھ پتلی بن جاتا ہے، مگر کب تک ! وقت کے پگھلتے لمحوں کے درمیان جب فیصلے کی گھڑی آ پہنچتی ہے تو وہ اپنا ہاتھ مقابلے سے کھنیچ لیتا ہے مگر ایسا بھی ہوتا ہے کہ کوئی اس کے وجود کو پھلانگ کر بہت آگے نکل جاتا ہے، آئنیے پر بنی تصویر نئے خال و خد میں ڈھل جاتی ہے یوں لگتا ہے کہ پردے کے پیچھے کوئی چھپا ہوا ہے ۔ ہر لمحے گھورتی ہوئی سیاہ آنکھیں اور پھر تھکا دینے والی کیفیت سے ڈر کر وہی انسان جو تازہ لمحے تراش رہاہوتا ہے، دھند کے اس پار ہمیشہ کے لئے کھو جاتا ہے۔
وقت کتنی کروٹیں لیتا ہے اس کا اندازہ ہمیں لوگوں کے متضاد رویوں سے ہوتا ہے، اس منظر میں کچھ لوگ اندھیرے کا کاٹ کر روشنی کے لئے راستہ بناتے ہیں۔ ساحل پر دوڑتے قدموں کی گرمی، فضا میں اڑتے پرندوں کا نغمہ،پہاڑوں پر پھیلی برف جیسی خاموشی اور دو دلوں کے درمیان ایک ناچتا ہوا مکالمہ انسانی محبت کی لازاول داستان ہے مگر اس کے باوجود غم والم ہماری زندگی کا جزو ہیں۔ اس لمحے جب زندگی کو ہم کسی اندھے کنوئیں میں دھکیلنا چاہتے ہیں تو کوئی تاریکی کو روشنی سے کاٹ دیتا ہے۔
اپنے وجود کو ایک نئے آغاز کے ساتھ لکھنا، زندگی کا نیا چہرہ بنانا ہے ۔۔۔۔ اس ہنر میں آدمی خود سے بیگانہ ہو جاتاہے، آج زمین پر پھولوں کی کیاریوں کی جگہ بارود کے ڈھیر لگا دیئےگئے ہیں۔ ہر آدمی جنگاری ڈھونڈ رہا ہے اور جس کے پاس شعلہ ہو گا وہی ہمارا نجات دھندہ ہو گا۔ جب زمین ایک عظیم دھماکے کے ساتھ دھواں بن کر کرہ آسمانی میں بکھر جائے گی !