جب تھکن بازو سمیٹی ہے
دن کے سارے اجلے کپڑے
رات کے فرش پر گرتے چلے جاتے ہیں
آوازیں مجھے پکارتی ہیں
میں لمبے راستوں پر
پیروں کی لکیریں کھینچتا ہوں
میرے بدن پر سوئی تھکن
قطرہ قطرہ اندھیرے میں
گرتی جاتی ہے
خوشبو کا سیلاب پھیل جاتا ہے
میرے پیاسے ہاتھوں پر
مہکتا بدن ناچتا ہے
آوازیں میرے گرد بانہیں بکھیردیتی ہیں
پھر کوئی دستک ابھرتی ہے
اور دروازے کی آواز مجھے کھول جاتی ہے
Related Posts
پرندوں سے بھرا آسمان
پرندوں سے بھرا آسمان میں اس زندگی کا اگلا صفحہ لکھ چکا ہوں جو کہیں مصلوب کردی گئی ہے میرا دل ان بچوں کے ساتھ دھڑکتا ہے جن کے سر […]
سیا ہ ہاتھ اور جگنو
سیاہ ہاتھ اور جگنو ظلم کی سیاہ رات کو اجلا بنانے کی خواہش کرنے والے شہیدوں کا لہو دشمن کی آستینوں پر ایک روز ضرور چمکے گا ظلم کی زنجیر […]
کھلونوں کے پھول
کھلونوں کے پھول وقت کے آئینہ پر میں اپنا چہرہ دیکھنا چاھتا ہوں مگر بوڑھے خوابوں کی گرفت میں سور ج ڈوب گیا ہے آسمان تک دھول اڑ رہی ہے […]
روشنیوں سے دور
روشنیوں سے دور ستاروں کی روشنی سے بہت دور مردہ زمینوں اور آگ پھونکتی ہواوں کے درمیاں رقص ابد جاری ہے کتابوں میں چہرے لکھے جارہے ہیں اس پر ہول […]