ایک درخت کے نیچے وہ دو جسم تھے
مختلف سایوں اور آوازوں کے درمیان
انہوں نے ایک خواب دیکھا تھا
مگر روشنی کی آنکھیں
ان کی دشمن تھیں
دو سائے
ہمیشہ ایک دوسرے کے تعاقب میں
خود کو ہار جاتے ہیں
ایک درخت کے نیچے
وقت پگھلتا رہا
نہوں نے چاہا
کہ سورج کو زمین کا کفن
پہنا دیں
مگر ان کی آنکھیں
جو ایک دوسرے کو چھوتی تھیں
لمس کی پہنائیوں میں اندھی ہو گئیں
ایک درخت کے نیچے
مختلف زمانوں کی قید میں
وہ اجنبی سمتوں میں تقیسم ہوگئے