اسلام ، کفروجہالت کے مقابل ایک ایسی روشنی کا ظہور ہے ، جس نے انسان کے ذہن و دل کو منور کیا۔ ہمارا مذہب غور و فکر کی دعوت دیتا ہے ، جو علم کے راستہ میں حق و صداقت کا ابتدائی زینہ ہے۔
مسلمان سائنسدانو ں نے علم کے اس راستے کی درست راہیں متعین کیں ، ایسے اصول واضع کیے ، جس نے انسانی زندگی کو آسان اور علم کو اس کی قدر سے مشروط کر دیا۔
مگر آج علم کا ہر راستہ اور سائنسی واضح داری کا فروغ مسلمانوں ں کے ذہنوں پر خود فراموشی کے تالے لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔اس کے بعد کی تاریخ ایسےسیاہ واقعات سے بھری ہوئی ہے، جب مسلمانوں کے عظیم الشان شہر وں کو تاراج کیا گیا ، انسانی کھوپیڑیوں سے بلندو بالا مینار بنائے گئے ، کتب خانوں کو آگ لگادی گئی اور ان میں موجود بیش قمیت کتابوں کی جلی ہوئی راکھ سے دریاوں کا پانی سیاہ ہو گیا۔
مسلمان ٹوٹی ہوئی تسبح کے دانوں کی ظرح بکھیر دیئے گئے، مشرق ومغرب تک پھیلی عظیم الشان اسلامی مملکت کو ٹکروں میں بانٹ کر ان کی افرادی اور انقلابی قوت کو کمزور کر دیا گیا۔ انسانی حقوق کے لئے بلند کی گئی آواز کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منفی پر چار کیا گیا۔
کفرو اسلام کی جنگ آج بھی جاری ہے ، مگر ہمارے ھتیار ہمارے ہی خلا ف صف آرا ہیں۔ مسلمانوں کی مساجد پر ، خود مسلمان حملہ آوار ہیں۔ یہ کیسا علم ہے کہ اس کی روشنی ، جس نے غار حرا سے اپنا سفر شروع کیا اور پوری دنیا کو منور کر دیا ، اس کی آگہی ہمیں اپنے دشمنوں کو شناخت نہیں کرنے دیتی، شاید ہم علم کے راستے سے بھٹک گئے ہیں ، مگر ہمارا دین جو اپنی وحدت میں مکمل علم ہے ، تو پھر اپنے دین کی پاسداری کیوں ہم پر کیوں لازم نہیں؟
عقل و فہم کی کسوٹی پر کھا جائے تو معلوم ہوگا کہ ہمارا وطن عزیز ، کسی کو بھی عزیزنہیں ، ملک میں لسانیت اور عصبیت کو فروغ دیا جارہا ہے ، قومی سانحات و واقعات پر کوئی بھی غوروفکر کا قائل نہیں ۔ ملک کیسے دولخت ہوا ، اس کے پیچھے کو ن سے عوامل تھے، اس بربادی میں کن لوگوں کا مفادہ پوشیدہ تھا ، او ر اس تقیسم سے کن طاقتوں کو فائدہ حاصل ہوا۔ اسلام کے نام پر قیام ہونے والی ریاست کی حفاظت کیوں کر نظر انداز کی گئی، کیا وہی لوگ اور عوامل ہمارے درمیان آج بھی موجود ہیں، اور ملک کی مزید تقسیم کے فارمولے پر عمل کر رہے ہوں، ہماری سیاسی جماعیتوں نے کھوکھلے نعروں کے سوا کچھ نہیں د یا، جس کے باعث آج قوم کا سفر ترقی کی جانب نہیں تیزلی کی طرف گامزن ہے۔ ایک بار پھر اس امر کی ضرورت ہے کہ ایک ایسی قوم کی تشکیل کی جائے، جو اپنے قردار مقاصد سے آگاہ ہو۔
آج قوم ہم سے بے شمار سوالوں کے جواب چاھتی ہے، مگر ہم کون ہیں ؟ یہ سوال سب سے اہم ہے۔ معاشرہ افراد کی جن اکائیوں سے مل کر وجود پاتا ہے۔ اس کا ہر کرادر آج خود سے سوال کر رہا ہے کہ میں کو ن ہوں؟
ایک عالم دین ؟ کیا وہ دین کا صیح ادارک و فہم رکھتا ہے اور درست سمت کی رھنمائی کر سکتا ہے!
ایک معلم ؟ کیا وہ اپنے فرائض کی اہمت سے آگاہ ہے، کہ کس طرح ایک قوم سیسہ پلائی دیورا بنتی ہے !
غرض ایک سیاست داں ، ایک سپاہی ، ایک طبیب ، ایک منضف بھی اپنے پیشے سے وابستہ امور کی ادائیگی میں ، انضاف کے پیمانے پر پورا اترتا ہے۔ ان سب سوالوں کے جواب میں ایک بہت بڑا انکار ، ہمار ے سفر کی کامیابیوں کے راستے پر کھڑا ہے۔
غفلت اور جہالت کی گہری نیند میں سوئی ہوئی اس قوم کے ملک میں ، سیاسی جماعتیں ، سیاسی خاندانوں کی اجارادرای کی علامت بن گیئں ہیں، مذہبی جماعیتں اپنے مرکز سے بھٹک گیئں ہیں، عوامی خدمت سے شرسار کوئی نہیں ، قوی اداروں کو ، حکمرانوں کے دوست و احباب تباہ کررہے ہیں۔ بدعنوان افراد ،سرفرازی کے نشانات سے نوازے گئے ہیں۔
اس پش منظر میں ایک حالیہ واقعہ “توہین رسالتؐؐ و عظمت رسول ؐ ” کے نام پر سیاسی ،مذہبی جماعتوں اور حکومت کی طرف سے اعلان کردہ یوم احتجاج ہماری آنکھیں کھول دینے کے لئے کافی ہے ، لوگوں کے بے ہنگم احتجاجی ہجوم نے اس دن قومی اثآثوں کو پامال کیا لوگوں کی قیمتی املاک کو لوٹ لیا اور بے گناہ انسانی جانوں کو تلف کیا ، کیا احتجاج کر نے والے ان لوگوں کو ہم امت رسو ل قرار د ے سکتے ہیں۔ یہ سوا ل بہت اہمیت کا حامل ہے کہ کس طرح ان احتجاج کرنے والوں ، دھشت گرد، لٹرے، اور قاتل شامل ہوگئے، جنہوں نے تباھی اور خون کی ہولی کھیل کر ، ہمارے چہروں کو داغ دار کردیا۔
توہن رسالت ؐ کے واقعے سے جڑے یوٹیوب چینل کو ملک میں بند کر دیا گیا۔ اس ملک میں جہاں تعلیمی نظام پہلے ہی کھوکھلا ہو چکاہے ، حکومت کا یہ اقدام کہ وہ علمی اور سفارتی کوششو ں سے مذکورہ ویڈیو کلپ پر پابندی لگاتی جیسے دیگر مسلم ممالک نے کیا ِ یوٹیوب چینل پر بندش عائد کر دی۔ اس امر سے تعلیمی میدان سے وابستہ افراد خصوصا تحقیق اور دریافت سے وابستہ لوگ بری طرح متاثر ہیں۔ ضرروت اس بات کی ہے ہم اپنی ترجیحات کا درست تعین کریں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ، درست فیصلے ہی قومی ترقی و تعمیر کے لئے ضروری ہیں۔
اکمل نوید