مفلسی کی دیمک پوشاک کو چاٹ رہی ہے
دکھوں کی برہنگی کو چھپانا مشکل ہوگیا ہے
گھر کی دیواریں چھوٹی ہوتی جارہی ہیں
پرچھائیوں کے عقب میں غنیم کا لشکر ہے
جو روٹی چھیننے اور غزتوں پر وار کرنے آگے پڑھتا چلا آرہا ہے
بولتی زبانوں کا شور ساکت سمندر بن گیا ہے
کون ہے
جو اس سیاہ رات میں گرتی ہوئی دیواروں کی حفاظت کرے
کون ہے ۔۔۔۔ جو ہماری برہنگی کو ڈھانپنے کے لئے
اپنی پوشاک ہمیں دے دے
لیکن یہاں تو کوئی زندہ نہیں ہے
سارے چہرے پتھر کے ہوچکے ہیں
Related Posts
پرندوں سے بھرا آسمان
پرندوں سے بھرا آسمان میں اس زندگی کا اگلا صفحہ لکھ چکا ہوں جو کہیں مصلوب کردی گئی ہے میرا دل ان بچوں کے ساتھ دھڑکتا ہے جن کے سر […]
سیا ہ ہاتھ اور جگنو
سیاہ ہاتھ اور جگنو ظلم کی سیاہ رات کو اجلا بنانے کی خواہش کرنے والے شہیدوں کا لہو دشمن کی آستینوں پر ایک روز ضرور چمکے گا ظلم کی زنجیر […]
کھلونوں کے پھول
کھلونوں کے پھول وقت کے آئینہ پر میں اپنا چہرہ دیکھنا چاھتا ہوں مگر بوڑھے خوابوں کی گرفت میں سور ج ڈوب گیا ہے آسمان تک دھول اڑ رہی ہے […]
روشنیوں سے دور
روشنیوں سے دور ستاروں کی روشنی سے بہت دور مردہ زمینوں اور آگ پھونکتی ہواوں کے درمیاں رقص ابد جاری ہے کتابوں میں چہرے لکھے جارہے ہیں اس پر ہول […]