اب جینے کے کئی معنی ہیں ، یہاں پہچنے تک ہم نے کئی زخم اٹھائے اور ایک ایسی دھوپ عبور کی جس کی جلتی آگ میں اڑتے پرندے بھی پگھل رہے ہیں۔ تم سنگھار کرنا چاھتی ہو، اپنا روپ، اپنی خوشبو ، اپنی آواز اور قدموں کی چاپ، سب کچھ میرے حوالے کردینا چاھتی ہو۔
سفر کی دھوپ سے ابھی تک ہمارے چہرے جھلسے ہوئے ہیں، ہواؤں کے سائے تلے ہم اپنےاپنے جسموں کی کتھا لکھ رہے ہیں۔ جدائی کے ایک ایک پل کو اپنے جسموں سے اتار کر پھینک رہے ہیں۔
میں تمہیں ایک نئے روپ میں دیکھ رہاہوں، ان دیکھی چاہتوں کو اپنے بدن سے لپٹے تم میرے طرف بڑھ رہی ہو۔
اور جب ہمارے جسموں کے اندر روشنیاں جلنے لگتی ہیں، ہم نئے سفر کی اور بڑھنے لگتے ہیں۔