کہانی کی آخری سطر

کاش زندگی کا کوئی قاعدہ بنایا ہوتا
اس پر ایک چمکتا سرورق ہوتا
شاندار کہانی اس میں لکھی ہوتی
مگر زندگی نے تو اپنی پہلی اننگر میں ہی
مجھے راستے سے باہر کر دیا
بہت عرصے سے میں ٹوٹی ہوئی منڈیر پر بیٹھا ہوں
لوگوں کے قدم مجھ سے آگے بڑھتے جا رہے ہیں
میں پیاسا ہوں
کسی کو نہیں بتا نہیں سکتا
اور اپنی پیاس میں خود نہیں بجھا سکتا
زندگی کے راستے سے بھٹک کر
ایک گم نام اندھرے میں
میں پکار رہا ہوں
مگر آواز پیاس کے کوزے میں بند ہے
کوئی میری پکار کو سن لے
لوگوں کے قدموں کی آواز تھم جائے
اس سے پہلے کہ لوگ کہانی کی آخری سطر تک پہنچ جائیں
اکمل نوید

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.

Scroll to Top