ایک ایسی گہری رات کے بعد
طلوع ہونے ہوالی نئے سال کی صبح کیسی ہوگی
جب آگہی جرم بن چکی ہے
جب الفت و محبت میں ڈوبے ہوئے لمحے
وقت کی ٹوٹی ہوئی کرچیوں میں خون آلودہ پڑے ہیں
اور وقت کی بے وفائی
بے دام ہوچکی ہے
آدمی اپنے انسان ہوئے کے احساس سےمحروم ہے
جب ایک کلی پھول بننے کی عمر کو نہیں چھو سکتی
جب ایک خیال
خوشبو کی لہر نہ بن سکےگا
تو آنے والے سال کا نیا دن
بسنت کے رنگ کیونکہ بانٹے گا
آج محبت جرم بن چکی ہے
اور ایک بار پھر
کچا گھڑا، محبت کے شور مجاتے
دریا کی لہروں میں گم ہوتا جارہاہے
کوئی ہے
جو محبت کی اس دعا کو سمیٹ لے
اورانسان کے پتھر نما چہرے پر
>روشنی بکھر دے