جب زندگی کے درمیا ن راستے ختم ہوھوگئے
تو ہم نے سوچا، ایک ایسی رات آراستہ کی جائے
جسکی مشرقتی دیوار پر سورج کبھی طلوع کہ ہو
خوشبو کی بہتی جھیل میں
جب ہم نے اپنے پاوں رکھے
تو چاند اور ستارے ہمارے ہمراہ تھے
پرندوں کی اجلی آوازیں
تنہائی کی چادر پرلکھے
گم شدہ خوابوں کو زندہ کر رہی تھیں
اور خوشبو کی چھیل کنارے
ہماری تنہائی کے زخم سیئے جارہے تھے
اس چھیل میں تیرتے ہوئے
ہم نے اپنے وجود کو
>ایک خوبصورت تصویر کے روپرو پایا
رنگ ہر طرف اڑ رہے تھے
خوشبو کے ساتھ رقص کرتے ہوئے
ہم نے اپنے پیاسے جسموں پر نقش
رنگوں کی لکیروں کو لباس کی قید سے آزاد کر دیا
Related Posts
اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔
اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔ سجدہ گاہ کو لہولہاں کر دیا گیا مسجد کی درودیوار پر میرا جسم لہو کی صورت چسپاں ہے فرش پر سجدہ ریز لاشیں ہی […]
اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔
اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔ سجدہ گاہ کو لہولہاں کر دیا گیا مسجد کی درودیوار پر میرا جسم لہو کی صورت چسپاں ہے فرش پر سجدہ ریز لاشیں ہی […]
اس کی آخری تصویر
ٹیلفون کی کنٹکیٹ لسٹ میں اپنے دوستوں کا نام تلاش کرتے ہوئے اس کا نام باربار میری نظروں کے سامنے سے گزرتا ہے اس کی آخری تصویر کنٹرکٹ پروفائل پرموجود […]
غیر تخلیقی لمحوں کا درد
یہ لمحے جو گزررہے ہیں،مجھے ایک درد سے دوچار کررہے ہیں میں اپنے دل کی ڈھرکنوں کو لفظوں سے جوڑکر ایک ایسا آھنگ بنا نا چاھتا ہوں جو میرے ساتھ […]