اسکے خال و خد میرے جسم کی حراتو ں میں لکھ دئے گئے
حیرتوں کی چار دیواری سے دور
پرندوں کی آوازوں کے ہمراہ طلوع ہونے والی صبح
جہاں گہری نیند میں دیکھے جانے والے خواب ہمیشہ ٹوٹ جاتے ہیں
ایک احساس بے کنار آسمانوں کی سمت پھیل رہا تھا
خواب کی بے چین نیند سے جاگ کر اس کا سایہ
میری روح کی ویرانی کو چھو گیا
میرے ہاتھ مٹی کے بدن کو سانچوں میں ڈھال رہے تھے
اس کے وجود کو میں نے کتنی ہی تصویروں میں دیکھا
مگر اس کے ہونے کا احساس سورج کی تیز روشنی میں جل رہا تھا
تب ہم نے اپنی قربتوں کے نشہ میں ڈوبی شراب سے
ہونٹوں کی پیاس بجھائی
تاکہ عکس در عکس
جنموں تک پھیلی
آوارگی کی بے خواب نیند کے سراب سے
ہمیں رہائی ملے
Related Posts
اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔
اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔ سجدہ گاہ کو لہولہاں کر دیا گیا مسجد کی درودیوار پر میرا جسم لہو کی صورت چسپاں ہے فرش پر سجدہ ریز لاشیں ہی […]
اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔
اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔ سجدہ گاہ کو لہولہاں کر دیا گیا مسجد کی درودیوار پر میرا جسم لہو کی صورت چسپاں ہے فرش پر سجدہ ریز لاشیں ہی […]
اس کی آخری تصویر
ٹیلفون کی کنٹکیٹ لسٹ میں اپنے دوستوں کا نام تلاش کرتے ہوئے اس کا نام باربار میری نظروں کے سامنے سے گزرتا ہے اس کی آخری تصویر کنٹرکٹ پروفائل پرموجود […]
غیر تخلیقی لمحوں کا درد
یہ لمحے جو گزررہے ہیں،مجھے ایک درد سے دوچار کررہے ہیں میں اپنے دل کی ڈھرکنوں کو لفظوں سے جوڑکر ایک ایسا آھنگ بنا نا چاھتا ہوں جو میرے ساتھ […]