آج کا دن غیر معولی طور پر روشن ہے
لوگوں کے ہجوم کے درمیان
بے نام چہروں ،
بے ہنگم آوازوں کے شور
اور روشنی کے بے سمت بکھرتے زاؤیوں کو توڑ کر
مجھے اس تک پہچنا ہے
جس کے لئے
میرے دل کے مندر میں گھنٹیاں بجائی جارہی ہیں
وہ چہرہ اجبنی ہے
مگر زندگی کے اندھرے میں
جب روشنی کا دیا جلے گا
اور پتھرائے ہوئے ہونٹوں پر
مسکراہٹ اپنے لمس سے ہنسی سجادے گی
آج کا دن غیر معولی طور پر روشن ہے
لوگوں کا ہجوم
ایک دیوار کی طرح راستے بند کر رہا ہے
مجھے ایک بلند پرواز کرکے
اس آشیانے تک پہچنا ہے
جہاں زندگی ہے
جہاں سرگوشی بھی معنی رکھتی ہے
Related Posts
اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔
اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔ سجدہ گاہ کو لہولہاں کر دیا گیا مسجد کی درودیوار پر میرا جسم لہو کی صورت چسپاں ہے فرش پر سجدہ ریز لاشیں ہی […]
اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔
اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔ سجدہ گاہ کو لہولہاں کر دیا گیا مسجد کی درودیوار پر میرا جسم لہو کی صورت چسپاں ہے فرش پر سجدہ ریز لاشیں ہی […]
اس کی آخری تصویر
ٹیلفون کی کنٹکیٹ لسٹ میں اپنے دوستوں کا نام تلاش کرتے ہوئے اس کا نام باربار میری نظروں کے سامنے سے گزرتا ہے اس کی آخری تصویر کنٹرکٹ پروفائل پرموجود […]
غیر تخلیقی لمحوں کا درد
یہ لمحے جو گزررہے ہیں،مجھے ایک درد سے دوچار کررہے ہیں میں اپنے دل کی ڈھرکنوں کو لفظوں سے جوڑکر ایک ایسا آھنگ بنا نا چاھتا ہوں جو میرے ساتھ […]