میں ایک ایسی کہانی کا حصہ ہوں جسے کسی انجام کے بغیر لکھا دیا گیا، اس شہر خاموشاں میں ، جہاں ہوا بھی ٹہر گئی تھی، خواب سے بیدار ہوتی آنکھوں نے رقص کی خواہش کی، مگر اس اجنبی شہر میں آشنائی جرم ٹہری۔
پھر کہانی میں تمہیں بھی شامل کر دیا گیا، شاید تقدیر ایسے ہی کھیل رچاتی ہے، تم محبت کے شجر سے توڑا گیا ثمر تھیں، ایک ناراض رویہ تمہاری آنکھوں میں آ بیٹھا تھا، اور تم کسی کا اعتبار نہیں کر سکتی تھیں، مگر قدرت ایسے ہی کھیل رچاتی ہے، کیوپڈ کا چلا تیر بے خطا تھا اور تم گھائل ہوگیں۔
تمام راستے رقص گا ہ کی طرف جارہے تھے، یہ کہانی جو کسی انچام کی محتاج نہ تھی، دو دلوں کے درمیا ن سفر کر رہی ہے،درمیان میں ایک دریا بہہ رہا ہے، پہاڑوں کی وادیوں میں ایک پکار گونج رہی ہے، اور ہمارے دل انچانے وسوسوں سے ڈھرک رہے ہیں، ایک دریا کے کنارے ہم دونوں پیاسے ہیں اور بارش ہورہی ہے۔
یہ بھی قسمت میں لکھا ہے کہ ہم کسی انجام تک نہیں پہنچ پائیں گے اور ہر صبح اپنی ناتمام آرزوں کو ساتھ لے کر ہم اپنے اپنے قفس سے پرواز کر تے ہیں، متروک وادیوں اور برباد شہروں پر سے گزرتے ہوے، ایک لمس کی خواہش ہم پر اپنی تھکن طاری کر دیتی ہے۔
ایک سوال جو بار بار اپنی شکلیں بدلتا ہے، مگر ہمیں اجبنی نہیں کر سکتا !