ایک بار پھر مجھے پناہ درکار ہے
مصنوعی موسم کی اجلی شاموں سے میں خود کو موڑ چکا ہوں
خوشیوں کے لمحےٹوٹی ہوئی گھڑی کی سوئیوں کی طرح
ایک ہی زمین پر رک گئے ہیں
میں بہت آگے نکل آیا ہوں
ایک بار پھر مجھے پناہ درکار ہے
جو تم جیسا ہو اور کوئی سوال پوچھے بنا
میرے جسم و جاں میں نشہ بن کر اتر جائے
شاید کوئی فیصلہ میرے اندر کہں ہوچکا ہے
اس لئے تو میں وقت کے ساتھ نہیں ہوں
کوئی اجنبی ہاتھ مجھے جکڑے ہوئے ہے
میرے سانسوں کی ڈوریوں کو تھامے ہوئے
مجھے کسی اور سمت گھسیٹ رہا ہے
میں وہاں جانا نہں چاھتا
جہاں تم نہیں ہو ۔۔۔۔
>ایک بار پھر مجھے پناہ درکار ہے